پربودھنکر ٹھاکرے

پربودھنکر ٹھاکرے

ایک بے باک دانشور-ایک انقلابی رہنما

از۔امتیازخلیل

            پربودھنکر ٹھاکرے کا نام سامنے آتے ہی عام طور پرلوگ انہیں محض شیو سینا پرمکھ شری بالا صاحب ٹھاکرے کے والد کی حیثیت سے پہچانتے ہیں ۔لیکن جو لوگ انہیں صحیح معنی میں پہچانتے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ بالا صاحب ٹھاکرے کی زندگی کے ہر پہلو پر پربودھنکر ٹھاکرے کی چھاپ نظر آتی ہے ۔ وہ چاہے انکا تیکھا انداز تخاطب ہو یا سامنا کا بیباک انداز تحریر، چاہے شیوسینا کی مراٹھی مانس کی سیاست ہو یا انکے اندر کا کارٹونسٹ، سب کے سب پربودھنکر ٹھاکرے کے مرہون منت ہیں۔

            کیسوسیتارام (جوان کا حقیقی نام تھا)کا جنم۱۷؍ستمبرسن۱۸۸۵ء کو مہاراشٹر کے پنویل شہر میں ہوا۔ان کا خاندان ایک متوسط کاسئت خاندان تھا۔ان کے دادا،دادی،نانااوروالد بذات خود سلجھے ذہن کے لوگ تھے۔سماجی نابرابری اوراندھی عقیدت کے مخالف اورانسانی رواداری کے علمبردارتھے۔یہی کچھ اثرات کیسوسیتارام کی شخصیت پر پڑے اوربچپن سے ہی ایک بہوجن سماجوادی فکر کے حامل رہے۔پڑھنے لکھنے کی عمر میں مہاتماجیوتی باپھُلے کے خیالات سے متاثر ہوئے اورپھراُنہی کے ہوکر رہ گئے۔مہاتماپھُلے کو وہ اپنا رہنما اوران کے خیالات کو اپناطریقہ حیات تصورکرتے تھے۔ پھلے نے برہمنواد کے خلاف جو محاذ چھیڑا تھا، وہ اس تحریک کے پرچم بردار بن گئے۔ 

            ان کو بچپن سے ہی ان برہمنوں سے چٹر تھی جو انسانوں کو مختلف خانوں میں بانٹتے تھے۔انہیں اُن برہمن پنڈتوں سے نفرت تھی جو مذہب کومحض پیسے کمانے کا ذریعہ سمجھتے اورانسانوں کوجات پات کی بنیاد پر تقسیم کرکے اپنا الّوسیدھاکرتے ۔جو عورتوں کومردوں کے مقابلے کم تراورمعمولی سمجھتے تھے اور انہیں ان کے جائز حقوق سے بھی محروم رکھتے۔وہ ایسے برہمن وادکے کٹرمخالفت تھے جو مساوات کا دشمن اورالگاؤ وادکا حامی تھا۔ان کا یقین تھاکہ سماج کی اکثر برائیوں کی جڑ یہی برہمن واد ہے۔

اپنی انہی تحریکوں کوسہارادینے کیلئے اور اپنے مشن کو آگے بڑھانے کیلئے پربودھنکر ٹھاکرے نے تین چیزوں کو ہتھیار بنایا۔قلم کو سب سے پہلے استعمال کیا۔اپنی تحریروں سے سماج میں ہلچل پیداکی۔پھر اپنی شعلہ بیانی سے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی اورآخر میں بولنے اورلکھنے سے آگے خودعمل کرکے دکھایا ۔میدان عمل میں انہیں بہت سی دشواریوں کا سامناکرناپڑا۔اپنوں اورغیروں کی نکتہ چینی سَر راہ آئی۔حوالات میں بند رہناپڑا،مگرہرمصیبت،ہرپریشانی ان کے حوصلو ں کو زیادہ مضبوط کرتی گئی ۔

            پربودھنکر ٹھاکرے کے قلم کا سفر پنویل میں سکونت کے دوران ہی شروع ہوا۔ کرمنک اور ودیارتھی جیسے  ہفت روزہ اخبارات میں مضامین شائع ہونے لگے ۔پھر جلگائوںسے اپنا ذاتی اخبار ’سارتھی، شروع کیا جو سال بھر تک کامیابی سے چلتا رہا۔ اور پھر وہ وقت آیا جب انہوں نے ’پربودھن، نامی  ہفت روزہ اخبار نکالا۔ ۱۶  ٔاکتوبر ۱۹۲۱ء کو شروع ہونے والے اس اخبار نے مراٹھی صحافت میںایک انقلاب برپا کر دیا۔ یہ اخبار اس دور میں منظر عام پر آیا جب سرکاری ملازموں کو اخبار نکالنے کی اجازت نہیں تھی، لیکن پربودھنکر ٹھاکرے کی برہمنواد مخالف پالیسی فرنگی سامراج کے حق میں تھی اسلئے انہیں خصوصی پرمیشن عنایت کی گئی۔پھر بھی انگریز حکومت کی پشت پناہی کا الزام نہ آجائے اس واسطے پربودھنکر ٹھاکرے نے سرکاری نوکری سے استعٰفی دے دیا۔,پربودھن، کی زبان آسان اور عام فہم تھی مگر اس کا انداز بہت ہی راست  اور پڑھنے والے کے تن بدن میں آگ لگا دینے والا تھا۔ وہ اپنے تبصروں میں نہ صرف چکوٹی کاٹتے بلکہ سامنے والے کو مجروح تک کر دینے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ یہ انداز لوگوں کو اتنا پسند آیا کہ جلد ہی , پربودھن، مراٹھی زبان کا مقبول تر اور کثیرالاشاعت اخبار بن گیا۔ یہ اخبار چھ سال تک باقائدگی سے نکلتارہا اور اس نے بہوجن سماجوادی فکر کی صحافت کو ایک منفرد شناخت عطا کی۔ پربودھن اتنا معروف اخبا ر تھا کہ لوگ کیسو سیتارام کا نام بھول کر انہیں پربودھنکر ٹھاکرے کے نام سے بلانے لگے۔ وہی نام بعد میں ان کی پہچان بن گیا۔  اسی دوران پربودھنکر ٹھاکرے نے  پونے سے , لوک ہت وادی نامی  ہفت روزہ ا خبار بھی جا ری کیا۔

             پربودھن کے بند ہونے کے بعد انہوں نے کوئی ذاتی اخبار نہیں نکالا۔ البتہ مراٹھی کے مختلف روزناموں،  ہفت روزوں اور رسالوں میںبلاناغہ مضامین لکھتے رہے۔  مالتی تندولکر کے’’ پرتود‘‘ کے مدیر بھی رہے۔ کامگار سماچار، اگرنڑیہ، وجئے مراٹھا، قندیل جیسے اخبارات کے علاوہ نوامنو، پوڈھاری، نواکال، لوکمانیہ اور بات مدار میں مستقل لکھتے رہے۔  آخری دنوں میں خاص طور پرصرف ’’ مارمک‘‘ کیلئے کالم لکھتے تھے۔

            پربودھنکر ٹھاکرے چھترپتی شاہو مہاراج سے اور مہاراج  ان سے بہت متاثر تھے۔پربودھنکر ٹھاکرے شاہو مہاراج کے ساتھ گائوں گائوں گھوم کر برہمنواد کی مخالفت میں جٹے رہے ۔ جس جگہ قیام کرتے وہاں کی تاریخ کا بغور مطالعہ کرتے اورموجودہ صورتحال کا تجزیہ کرتے۔ برہمنوں کے اخبارات میں بہوجن مخالف اشاعتوں اور تنقیدی مضامین کا اسی انداز میں جواب دینے کیلئے شاہو مہاراج کو بھی تیکھا اور منجھا ہوا قلمکار مطلوب تھا، چنانچہ پربودھنکر ٹھاکرے سے زیادہ اور کون اس کام کو بخوبی انجام دے سکتا تھا۔پربودھنکر ٹھاکرے کی طنزیہ اور بیباک تحریروں کی وجہ سے ہی شاہو مہاراج انہیں،دھنش، پکارتے تھے۔ شاہو مہاراج سے اتنی قربت کے بعد بھی، جب کبھی وہ محسوس کرتے کہ مہاراج کے قدم کہیں ڈگمگائے، ان کا قلم مہاراج کے اس کام کے خلاف لکھنے سے نہیں چوکتا۔شاہو مہاراج نے بھی کئی بار پربودھنکرٹھاکرے کا امتحان لیااورہربارکھراثابت ہونے پر اپنے اعتمادکی مہرلگاتے ہوئے کہاتھاکہ’’پربودھنکرٹھاکرے کو خریدپاناناممکن ہے‘‘۔

          شاہو مہاراج کے علاوہ کرم ویر بھائورائوپاٹل جو جدید مہاراشٹر کے بانیوں میں تصور کئیے جاتے ہیں ، پربودھنکرٹھاکرے کونہ صرف اپنا استاد مانتے تھے بلکہ اپنے تعلیمی مشن میں انہیں اپنا شریک کار سمجھتے تھے ۔

پربودھنکرٹھاکرے بھی  بھاؤ راؤ پاٹل کی تعلیمی تحریک میں انکی بھر پور معاونت کرتے تھے ۔ بھاؤ راؤ پاٹل نے جب پچھڑی جاتی کے لوگوںکیلئے بورڈنگ اسکول قائم کرنے کا ارادہ کیا تو اسکے لئے  ہریجن فنڈ سے ڈونیشن حاصل کرنے کیلئے مہاتما گاندھی کے پاس پربودھنکرٹھاکرے ہی لے گئے تھے اور ایک عرصے تک یہاں سے ہزار روپے سالانہ بطور امداد دلاتے رہے ۔ اسکے باوجود مہاتما گاندھی کو بھی موقع بہ موقع اپنے قلم کا نشانہ بناتے رہے ۔ یہ بھی سچ ہے کہ کانگریسی نہ ہوتے ہوئے بھی کئی موقعوں پر مہاتما گاندھی کا ساتھ دیا ۔ اکولہ میں گاندھی جی کی ایک مجلس کو جب سبوتاژ کرنے کی کوشش کی جارہی تھی تب پربودھنکرٹھاکرے نے ہی گاندھی جی کو جلسگاہ تک پہنچایا اور پروگرام کو کامیاب بنانے میں اہم رول ادا کیا ۔ ناتھو رام گوڈسے کے اخبار میں جب مہاتما گاندھی کو تضحیک آمیز انداز میں مخاطب کرتے ہوئے محض’’ مسٹر ایس‘‘ لکھا گیا تو احتجاجاً اس اخبار میں لکھنا بند کر دیا ۔ 

            یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ پربودھنکر ٹھاکرے کی لڑائی ان برہمنوں سے ہرگزنہیں تھی جوانسان دوست اورمساوات کے ماننے والے تھے۔ان کا مقبول عام ڈرامہ’’کَھرابرہمن‘‘(سچّابرہمن)ان کے خیالات کی ترجمانی کرتاہے جوسنت ایکناتھ کی شخصیت کو اُجاگر کرتاہے۔اسمیں سچے برہمن کی قدر کی گئی ہے۔اسی طرح مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد جو کے ایک برہمن نے کیاتھا، ملک بھر میں اورخصوصاً مہاراشٹر میںجب برہمنوں کا جینا دوبھرکیا جارہاتھا تب پربودھنکرٹھاکرے نے اپنے علاقے کے برہمنوں کی حفاظت خود کی۔

            پربودھنکرٹھاکرے نے جب ممبئی کو اپنامسکن بنایاتو یہاں بھی خاموش نہیںرہے بلکہ سماج میں ناسور کی طرح پھیل چکی جہیز کی بیماری کے خلاف ایک زبردست تحریک شروع کی۔اپنے ہم خیال افراد کے ساتھ ملکر’’جہیزمخالف دستہ‘‘تیارکیااوراس دستے نے پرزورطریقے سے جہیز کی رسم کے خاتمے کی کوشش کی۔نہ صرف شادی کے وقت جہیز پر پابندی کی بات کی بلکہ کئی موقعوں پر جن دولہے والوں نے جہیز وصول کرلیاتھاان سے چھین کر دوبارہ لڑکی والوں کودلانے کا کارنامہ بھی انجام دیا۔اس تحریک کا مقصد جہیز کی بھینٹ چڑھنے والی ہزاروں عورتوں کی زندگی محفوظ کرناتھا۔اوراس کے خاطر خواہ نتائج ظاہر بھی ہوئے۔

            اپنی زندگی میں پربودھنکرٹھاکرے نے بہت سے کام انجام دیئے ۔ متحدہ ریاست مہاراشٹرکے قیام کی کوششوں میں ان کا حصہ،ان کے کاموںمیں ایک اہم کام تصور کیا جاتا ہے۔ریاست مہاراشٹر کے قیام کی تحریک کا جب بھی ذکرہوگا اُن کا نام آچاریہ آترے ،بھائی مدھورائوباگل، پربھاتکر کوٹھاری اورکامریڈ ڈانگے کے ساتھ یادکیاجائے گا۔اس تحریک میں مختلف الفِکر سیاسی جماعتوں سے بات چیت کرنااورانہیں ایک پلیٹ فارم پرآنے کے لئے آمادہ کرنا،انہی کاکارنامہ ہے ۔سن ۱۹۵۰ء میں جب یہ تحریک شروع ہوئی تب تک ان کی عمر زیادہ ہوچکی تھی پھر بھی انہوں نے اس میں زبردست رول انجام دیا۔

سن ۱۹۲۶ء کے گنیش آتسو کے موقع پر جب دادر میںاس بات پر اختلاف ہوا کہ گنیش پوجابرہمن کی بجائے کسی پچھڑی جاتی کے ھندو کے ہاتھوںسے ہو توبرہمن، غیر برہمن جھگڑا شروع ہوگیا، جس پر پربودھنکرٹھاکرے نے مسئلہ جلدی نہ سلجھا تو گنیش کی مورتی توڑنے تک کی دھمکی دے ڈالی۔ اس دھمکی کا اثر یہ ہواکہ بابا صاحب امبیڈکر اور رائو بہادر نے معاملے میںافہام و تفہیم سے مسئلہ حل کیا اور یہ طئے پایا کی دلت ہاتھوں سے پھول دیا جائیگا جو برہمن گنیش کے قدموں میں ارپن کریگا۔ اس واقعے کے بعد سے یہ آتسو بند ہوگیا جسکا سیدھا الزام پربودھنکرٹھاکرے پر لگایا گیا۔ پربودھنکرٹھاکرے نے اس کا جواب دینے کیلئے ’ساروجنک نوراتری‘ کا سلسلہ شروع کیا جو آج تک بحسن و خوبی جاری ہے۔             

پربودھنکرٹھاکرے کو بہوجن سماجوادی ہندوتوا کا کُل پُرش بھی کہا جاتا ہے۔ وہ من سے ہندوتوادی تھے اور فکر سے بہوجن سماجوادی۔ انکا ہندوتواد نہ مسلمانوں کا دشمن تھا نہ ہی عیسائیوں کا۔ البتہ ہندوتواد کی آڑ میں برہمنی ایجنڈے کو بڑھاوا دینے سے انہیں نفرت تھی۔انکا سیاسی و مذہبی نظریہ بالکل واضح تھا،  اسی لئے زندگی بھر کانگریس اور ہندومہاسبھا دونوں سے برابر کی دوری بنائے رکھی ۔ ان کا ہندوتوا’’ گجانن رائو وید‘‘ کی ھندومشنری سوسائٹی کا پیرو تھا۔ اس سوسائٹی نے مذہب بیزارلوگوں کو دوبارہ مذہب پرست بنانے کا زبردست کارنامہ انجام دیا۔ لیکن غیر برہمن ہونے کیوجہ سے ان کی خدمات کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا۔ پربودھنکرٹھاکرے نے اس سوسائٹی کیلئے بھی بہت کوششیں کیں، اور گائوں گائوں گھوم کر اس کا پرچار کیا۔ ناگپور ہندو سوسائٹی کے صدر بھی بنے۔

            پربودھنکرٹھاکرے کی طویل زندگی ان کی مختلف الجہت خدمات کا آئینہ ہے۔وہ ایک انشاء پرداز،صحافی،مدیر،ناشر،ڈرامہ نویس،تاریخ نویس،مصّور،آرٹسٹ،فوٹوگرافر،اداکار،فلم نویس کے ساتھ ساتھ سماجی رہنما،سیاسی مفکراوراصلاح پسند مذہبی دانشوربھی تھے۔ان کی تصانیف ہوںکہ ان کی تقریریں،ان کے ڈرامے ہوں کہ ان کی تحریکیں سب کا دائرہ سماجی اصلاح سے تھا۔

            ان کی تحریر کردہ کتابوں میںکوڈانڈاچے تناتکار،بھِکُشک شاہی چے ڈنڈا، دھرمنچے دیولے انڈی دیوانچے دھرم،گرامدھناچے اتہاس،کماریکانچے شاپ،وکتروتھواششتروغیرہ مراٹھی ادب میں قابل قدر اضافہ ہیں۔’’سارتھی‘‘،’’لوکھتواڑی‘‘ اور’’پربودھن‘‘ان کی صحافت کے بے مثال نمونے ہیں۔کھَرابرہمن اور’’ٹاکلیلے پور‘‘(لاوارث بچے) ’کالا چے کال ، سنگیت وشینشدہ جیسے ڈراموں نے مراٹھی تھیٹرمیں ہنگامہ برپاکردیا۔  انہوں نے کئی سوانحِ حیات بھی تحریر کیں ہیں، جن میں پنڈتہ رمابائی سرسوتی، شری سنت گاڈگے بابا اور کرمویر بھائو رائو پاٹل کی زندگیوں پر لکھی بائیوگرافیاں قابل ذکر ہیں۔لیکن انکی سب سے ممتاز سوانح حیات انکی آپنی آپ بیتی ہے۔ ’’ ماجھی جیون گاتھا‘‘مراٹھی زبان کی بہترین سوانح سمجھی جاتی ہے۔ 

حملے کی تاک میں ا ٓپنے شکار کی جانب خونخوار نگاہوں سے دیکھتا ہوا ’’ شیر‘‘ جو شیو سینا کا نشان ہے، پربودھنکر کے ہاتھوں سے بنایا ہوا ہے۔’’ شیو سینا ‘‘  یہ نام بھی انہیں کا تجویذ کردہ ہے۔ ممبئی میں مراٹھی مانس کے روزگار کا مسئلہ بھی سب سے پہلے انہوں نے اٹھایا تھا اور انگریز سرکار سے، سرکاری نوکریوں میںمراٹھی عوام کو مناسب نمائندگی دلانے کی کوششیں بھی کیںتھیں۔ ’’مارمک‘‘ کے آغاز سے قبل جب بالا صاحب ٹھاکرے انگریزی  ہفت روزہ نکالنے جارہے تھے تب انہوں نے ہی مراٹھی اخبار نکالنے کا حکم دیا اور بعد میں ’’مارمک‘‘ نے شیو سینا کو  مقبول بنانے میں زبردست رول ادا کیا۔ 

            قلم کا یہ سپاہی ،زبان کا شہ سواراورعمل کا مجاہد، جو اپنی چوکھٹ پر پڑی مہمانوں کی چپل، جوتیوں کو اپنی اصل دولت تصور کرتا تھا،  ۲۰؍نومبر ۱۹۷۳ء کو ۸۸؍سال کی عمر میں اپنے پیچھے ان مٹ نشانات چھوڑکردنیا سے رخصت ہو گیا۔ااورہمارے لئے ایک بے داغ اورشفاف زندگی کا نقشہ چھوڑگیا۔ ان کے جلوس جنازہ میں جتنے لوگ شریک ہوئے ، اتنے لوگ ڈاکٹر باباصاحب امبیڈکر کے انتم سنسکار کے علاوہ ممبئی میں شاید ہی کبھی جمع ہوئے ہوں۔یہ مجمع دراصل عوام میں ان کی بے داغ شخصیت کی مقبولیت کا ثبوت تھا۔کہ،

اپنے نقوشِ پاسے زمانے کے واسطے

ترتیب دے رہاہوں نصاب سفرکو میں

٭٭٭